نتیجۂ فکر: ضامن علی
حوزہ نیوز ایجنسی| غاصب اسرائیل کی طاقت اس وقت خاک میں مل گئی تھی، جب اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے طوفان الاقصٰی آپریشن کے نام سے 5 ہزار میزائل داغے تھے اور اس کے بعد غاصب اسرائیل نے اپنی طاقت کو ایک غلط جگہ پر استعمال کیا وہ سوریہ میں ایرانی سفارت خانہ تھا۔ غاصب اسرائیل شاید یہ بھول گیا تھا کہ ایران میں شہنشاہی حکومت نہیں، بلکہ انقلابِ اسلامی کو کامیاب ہوئے 40 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے۔
تصویر کے دو رخ؛ اوپر والی تصویر تقریباً 40 سال پہلے کی ہے جب عالمی سامراجی قوتوں نے انقلابِ اسلامی کو ختم کرنے کیلئے چاروں طرف سے ایران کو گھیرے میں لے لیا تھا اور اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی ایران کے خلاف استعمال کی گئی اور لوگ ان ٹیکنالوجیز کو دیکھنے کیلئے جایا کرتے تھے، کیونکہ انقلابِ اسلامی سے پہلے بادشاہت تھی لوگوں کو اندھیرے میں رکھا ہوا تھا پھر اچانک آسمان کے افق پر ایک مرد مجاہد یعنی امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے توسط سے انقلابِ اسلامی کے نام سے ایک کرن روشن ہوئی۔ انقلابِ اسلامی کے پلند پایہ اہداف میں سے ایک ہدف قوم کی تشکیل تھا۔ شہنشاہی حکومت زمین بوس ہو گئی اور ایران عالمی سطح پر ایک ملت بن کر ابھرا۔ انقلابِ اسلامی نے عوام کو شناخت اور اہمیت دی، جس کا نتیجہ آج پوری دنیا میں مقاومت اور مزاحمت کی شکل میں موجود ہے۔
کسی بھی معاشرے میں ترقی کیلئے عوامی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ضروری ہوتا ہے اور یہ کام اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب کے ذریعے ہؤا۔
تصویر کا دوسرا رخ حالیہ وعدہ صادق آپریشن کا ہے، یہ آپریشن غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران نے کیا تھا۔ غاصب اسرائیل جو کہ عالمی سطح پر خود کو سپر پاور کہلاتا رہا ہے، جس کی ہیبت کو طوفان الاقصٰی کے بعد وعدہ صادق آپریشن نے بری طرح سے مذاق میں تبدیل کردیا ہے اور تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ غاصب صہیونی ایرانی میزائلوں کو دیکھ رہے ہیں اور تصاویر بنا رہے ہیں۔
وقت وقت کی بات ہے اب طاقت کے توازن میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اسلامی جمہوریہ ایران اب دنیا کی سپر پاور حکومتوں کی آنکھوں میں خار دار کانٹے کی مانند چھب رہا ہے اور یہ سب عوامی صلاحیتوں کو بروئے کار اور انہیں اہمیت دینے کا نتیجہ ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔